Hazrat Usman Gani RA


سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی سخاوت


امام اول خلیفہ بلافصل سیدنا ابوبکرؓ کے زمانے میں مدینہ منورہ میں غلے اور اناج کی قلت کی وجہ سے قحط کے آثار پیدا ہوئے لوگوں کو پریشانی لاحق ہوئی اسی دوران خبرملی کہ عثمانؓ ذوالنورین کے ایک ہزار اونٹ غلے اور اناج سے لدے ملک شام سے مدینہ منورہ پہنچ رہے ہیں مدینہ کے تاجر صبح سویرے عثمان ؓ ذوالنورین کے مکان پر پہنچے غلہ خریدنے کی پیش کش کی عثمانؓ ذوالنورین نے پوچھا تم شام کی خریداری پر کتنا نفع دے سکتے ہو تاجروں نے کہا دس کی خرید پر ہم بارہ دیں گے عثمان نے کہا مجھے زیادہ نفع ملتا ہے۔

تاجروں نے کہا ہم دس کے چودہ دیں گے۔ عثمانؓ نے کہا مجھے اس سے بھی زیادہ نفع ملتا ہے۔ تاجروں نے کہا ہم زیادہ سے زیادہ دس کا پندرہ دیں گے اس سے زیادہ نفع کوئی اور نہ دے گا۔ عثمانؓ ذوالنورین نے کہا تم مجھے دس پر فقط پندرہ نفع دیتے ہو مگر… میرے پاس ایسا بیوپاری ہے جو دس پر پندرہ نہیں۔ بلکہ …ایک پر دس نفع دے رہا ہے۔


تاجروں نے پوچھا وہ کون تاجر ہے؟


فرمایا وہ تاجرتمہارا میرا اور سب کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے جو ایک کے بدلے میں دس بدلے عنایت فرماتا ہے۔ اے تاجرو! میں تم سب کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ یہ سارے کا سارا غلہ میں بغیرکسی نفع اور بغیر کسی قیمت اور بغیرکسی قیمت کے اللہ کی خوشنودی کی خاطر مدینے کے تمام لوگوں پر خیرات کرتا ہوں ہر شخص اپنی ضرورت کے موافق اناج حاصل کر لے۔ کسی سے کوئی پیسہ اور کوئی قیمت وصول نہیں کی جائے گی۔

سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا بیان ہے کہ جس دن عثمان ؓ ذوالنورین نے غلہ اور اناج لوگوں میں تقسیم کرکے اہل مدینہ سے قحط دور کیا۔ اسی شب میں نے خواب میں رسول اللہ ؐ کی زیارت کی ۔میں نے دیکھا کہ حضورؐ ایک عمدہ سواری پر نوری پوشاک زیب تن کئے بڑی تیزی کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے ہیں۔ نور کی چھڑی آپ کے ہاتھ میں ہے اور جو جوتا آپ ؐ نے پہن رکھا ہے اس کے تسموں سے نورکی شعاعیں میں پھوٹ رہی ہیں۔


میں نے حضورؐ کو دیکھا تو زیارت کے شوق سے آگے بڑھا عرض کی یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ ؐ پرقربان ہوں مجھے آپ کی ملاقات کا بے حد اشتیاق ہے آپ ؐ نے فرمایا مجھے جلدی ہے کیونکہ عثمان ؓ نے اللہ کی راہ میں اناج سے لدے ایک ہزار اونٹ صدقہ کئے ہیں اللہ نے عثمانؓ کی یہ قربانی اور خیرات قبول کرکے جنت میں عثمان ؓ کی شادی کا بندوبست کیا ہے اور میں اس جشن شادی میں شریک ہونے جا رہا ہوں۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ حضورؐ کے آغازنبوت سے لے کر حضورؐ کے سفرآخرت تک عثمان ؓذوالنورین ہرغزوہ اور ہرمہم میں حضورؐ کے شریک وہمراہ رہے ہیں لیکن بعض مہمات ایسی ہیںجن میں عثمانؓ ذوالنورین کی شخصیت ایک نرالی شان اور آپ ؐ کی شرکت ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔چنانچہ غزوہ بدرکے موقع پر حضورؐ کی بیٹی سیدہ رقیہ ؓشدید بیمار تھیں حضورؐنے عثمان ؓ ذوالنورین کو حکم دیا کہ وہ غزوہ بدر میں شریک ہونے کی بجائے اپنی بیوی سیدہ رقیہ ؓ کی تیمارداری میں مشغول رہیں۔ اس لئے حضورؐ کے حکم سے سیدنا عثمان ذوالنورین غزوہ بدرکے وقت مدینہ منورہ میں سیدہ رقیہ ؓ کی تیمارداری کرتے رہے اور جنگ میں بنفس نفیس شمولیت نہ کر سکے۔ مگر بدرکی فتح کے بعد حضورؐنے عثمان ؓ ذوالنورین کو بدری صحابہ ؓ میں بھی شمارکیا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ عثمان ؓ اصحاب بدرؓ میں سے ہیں۔

سیدنا عثمان ؓ ذوالنورین کی سخاوت …تو ایسی مشہور ہے کہ ہرشخص اس سے بخوبی واقف ہے۔ ابن خلدون کے مطابق اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی ہرشخص چھوٹا یا بڑا غریب ہو امیر سیدنا عثمان ؓ ذوالنورین کی دولت وسخاوت سے فائدہ اٹھاتا تھا اور جب آپ اسلام قبول کرکے حضورؐ کے آل واصحاب ؓ میں شامل ہوگئے تواس وقت بھی آپ کی دولت نے اسلام کو مسلمانوں کو اورعام غربا کو اس قدر نفع پہنچایا کہ تاریخ اس سخاوت و فیاضی کی مثال پیش کرنے سے معذور ہے مگراس سے بھی عظیم فیاضی اور سیدنا عثمان ذوالنورین ؓکی سیرچشمی اس امر سے واضح ہوتی ہے کہ آپ نے اپنے زمانہ خلافت کے پورے گیارہ سال گیارہ ماہ اور تقریباً گیارہ دنوںمیں تنخواہ کے طور پر یا ذاتی اخراجات کے طور پر بیت المال سے کبھی کوئی پیسہ وصول نہیں کیا۔ آپ اپنی ذاتی یا گھریلو ضروریات کے لئے لوگوں پر صدقہ وخیرات کے لئے اور صلہ رحمی کے طور پر اپنے رشتہ داروں کے لئے جو کچھ خرچ کرتے اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے تاریخ ابن خلدون حصہ اول صفحہ نمبر467 پر طبری کی ایک روایت نقل کی گئی ہے جس میں طبری نے کہا ہے۔

سیدنا عثمان ؓ ذوالنورین اپنے زمانہ خلافت میں ہرسال حج کو جاتے تھے مقام منیٰ میں اپنا خیمہ نصب کراتے تھے جب تک حجاج کو کھانا نہ کھلالیتے تھے لوٹ کراپنے خیمے میں نہ آتے تھے ان تمام اخراجات کابیت المال سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ سب کچھ اپنی جیب خاص سے خرچ کرتے تھے۔

Comments

Post a Comment