Posts

Showing posts from July, 2021

Hadees e Nabwi

Image
یا مصطفیٰ خیرالوریٰ تیرے جیا کوئی نئیں  

Hadees e Nabwi

Image
  ‏حدیث نمبر 6112:  ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ  ( راستہ میں گری پڑی چیز جسے کسی نے اٹھا لیا ہو )  کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سال بھر لوگوں سے پوچھتے رہو پھر اس کا سر بندھن اور ظرف پہچان کے رکھ اور خرچ کر ڈال۔ ‏پھر اگر اس کے بعد اس کا مالک آ جائے تو وہ چیز اسے واپس کر دے۔ پوچھا: یا رسول اللہ! بھولی بھٹکی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پکڑ لا کیونکہ وہ تمہارے بھائی کی ہے یا پھر بھیڑیئے کی ہو گی۔ پوچھا: ‏یا رسول اللہ! اور کھویا ہوا اونٹ؟ بیان کیا کہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے اور آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو گئے، یا راوی نے یوں کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا، پھر آپ نے فرمایا کہ ‏تمہیں اس اونٹ سے کیا غرض ہے اس کے ساتھ تو اس کے پاؤں ہیں اور اس کا پانی ہے وہ کبھی نہ کبھی اپنے مالک کو پا لے گا۔  صحیح البخاری شریف کتاب الآداب

Hadees e Nabwi

Image
حدیث نمبر:6417    حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چوکھٹا خط کھینچا۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا۔ اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے ‏کے درمیان میں تھا چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو (بیچ کا) خط باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی ‏دنیاوی مشکلات ہیں۔ پس انسان جب ایک (مشکل) سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔" صحیح البخاری شریف کتاب دل کو نرم کرنے والی باتیں۔ ‎

Hadees e Nabwi

Image
‏حدیث نمبر: 6223: حضرت ابوہریرہ (رض)  سے روایت ہے کہ  نبی کریم  ﷺ  نے  (فرمایا کہ)  اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے اور الحمدللہ کہے تو ہر مسلمان پر جو اسے سنے، حق ہے کہ اس کا جواب یرحمک اللہ سے دے۔ لیکن جمائی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے اس لیے جہاں تک ہو سکے اسے روکے کیونکہ جب وہ منہ کھول کر ہاہاہا کہتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے صحیح البخاری شریف کتاب الآداب

Hazrat Usman Gani RA

Image
سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی سخاوت امام اول خلیفہ بلافصل سیدنا ابوبکرؓ کے زمانے میں مدینہ منورہ میں غلے اور اناج کی قلت کی وجہ سے قحط کے آثار پیدا ہوئے لوگوں کو پریشانی لاحق ہوئی اسی دوران خبرملی کہ عثمانؓ ذوالنورین کے ایک ہزار اونٹ غلے اور اناج سے لدے ملک شام سے مدینہ منورہ پہنچ رہے ہیں مدینہ کے تاجر صبح سویرے عثمان ؓ ذوالنورین کے مکان پر پہنچے غلہ خریدنے کی پیش کش کی عثمانؓ ذوالنورین نے پوچھا تم شام کی خریداری پر کتنا نفع دے سکتے ہو تاجروں نے کہا دس کی خرید پر ہم بارہ دیں گے عثمان نے کہا مجھے زیادہ نفع ملتا ہے۔ تاجروں نے کہا ہم دس کے چودہ دیں گے۔ عثمانؓ نے کہا مجھے اس سے بھی زیادہ نفع ملتا ہے۔ تاجروں نے کہا ہم زیادہ سے زیادہ دس کا پندرہ دیں گے اس سے زیادہ نفع کوئی اور نہ دے گا۔ عثمانؓ ذوالنورین نے کہا تم مجھے دس پر فقط پندرہ نفع دیتے ہو مگر… میرے پاس ایسا بیوپاری ہے جو دس پر پندرہ نہیں۔ بلکہ …ایک پر دس نفع دے رہا ہے۔ تاجروں نے پوچھا وہ کون تاجر ہے؟ فرمایا وہ تاجرتمہارا میرا اور سب کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے جو ایک کے بدلے میں دس بدلے عنایت فرماتا ہے۔ اے تاجرو! میں تم سب